آخر اس قومی ادارے کو کیوں لوٹا گیا

آخر اس قومی ادارے کو کیوں لوٹا گیا مدرسہ جامعہ اسلامیہ رحمانیہ


مدرسہ رحمانیہ کا قضیہ جو اس وقت چل رہاہے سب آپ حضرات کے علم میں ہے 

مدرسہ رحمانیہ کے موجودہ تعلیمی حالات کیاہیں یہ بات تو وہاں کے اساتذہ بہتر بتاسکیں گے باقی جہاں تک ہمیں معلوم ہے وہ یہ کہ اس وقت مدرسہ رحمانیہ مکتب کی شک اختیارکرتاجارہاہے ،بہرحال میرا موضوع اس وقت مدرسہ کی تعلیمی تنزلی نہیں بلکہ مالی خرد برد ہے،

اس سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ رحمانیہ کا حساب،کتاب کی شکل میں تمام ثبوتوں کے ساتھ ان شاءالله عوام کے سامنے لایا جائے گا،

یہ اس وقت کہاتھا جس وقت مہتمم مدرسہ رحمانیہ کی طرف سے والد صاحب کے خلاف تمام حدیں پار کردی گئیں اور کہیں نا کہیں والد صاحب کو داغدار کرنے اور انکی انتیس سالہ مدرسہ کیلئے خدمات کو فراموش کرکے ذہنی اذیت میں مبتلاء کرنے کی کوشش کی گئی، 

میں نے اور میرے بھائیوں نے ہر چند کوشش کی کہ رحمانیہ کے اس مسئلہ کوکسی بھی ہنگامی شکل سے بچاکرصرف  شوریٰ کے ذریعہ حل کیاجائے ،اور جو لوگ حساب میں خرد برد کرنے والے ہیں ان سے جواب طلب کرکے مدرسہ کو مزید مالی نقصانات سے بچایا جاسکے،اور حساب میں کی گئی خرد برد کو عوام کے سامنے نا لایاجائے، کہ اس سے باقی علماء اور اھل مدارس کے تئیں عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی،

اسکے لئے ہم نے شوریٰ کے ممبران سے بھی ملاقاتیں کیں ، اور بستی کے ذمہ دارعلماء سے بھی رابطے کئے ،مگر لگتاہے کہ یہ ہماری خام خیالی تھی اور علم کے  اس چمن سے کسی کو بھی دلچسپی نہیں، مالی ہونےکا دعویٰ تو سب کو ہے مگر کانٹوں کو صاف کرنے کی ذمہ داری کوئی بھی اٹھا نے کو تیار نہیں

شاید شوریٰ کی اسی سردمہری اور اپنے پیچھے بظاہر کھڑے خاندان کو دیکھ کر مہتمم مدرسہ رحمانیہ غرور وکبر میں دور تک جاچکے ہیں ،اوراپنی زبان سے  یہ الفاظ اداکررہے ہیں  کہ میں مالدار اور خاندانی شخص ہوں میراکوئی کیا بگاڑسکے گا،مگروہ یہ بھول گئے کہ یہ دینی مدارس میرے رب کی ملکیت ہیں اور انکی حفاظت بھی وہ اچھی طرح کرنا جانتاہے ، خاندان بڑاہونا یا کسی کا مالدار ہونا اسکے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتاجب وہ پکڑنے پر آتاہے تو اسکی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے،

بہرحال جب ہمیں یہ اندازہ ہواکہ مدرسہ رحمانیہ کو اب صرف ایک ہی صورت میں بچایاسکتاہے کہ اس تمام قضیے کو عوام کے سامنے رکھ دیا جائے،

 (کیونکہ یہ قیمتی اثاثہ ہماری بستی کے بچوں کے مستقبل کامحافظ ہے اور اکابرین ہندوستان کی نظر کرم ہر دور میں اس ادارے پر رہی ہے اسی لئے اس ادارے کی اپنی ایک تاریخ بھی ہے(

اسی لئے میں آج جب اس حساب کو عوامی عدالت میں پیش کرنے کی غرض سے کتابی شکل دینےلگا تو میری حیرت کی انتہا نا رہی 

کہ مدرسہ رحمانیہ کےصرف ایک مہینے کے حساب میں ایک لاکھ بانوے ہزار تین سو اٹہتر 192378روپئے کا فرق ہے

سوچئے مکمل حساب کا کیاحال ہوگا آپ اندازہ کر سکتے ہیں؟  کہ کس طرح قوم کے دیے ہوئے مال (جو طلبہ اور اساتذہ کا حق تھا) میں خرد برد کی گئی ہے، 

یہاں میں یہ وضاحت ضروری سمجھتاہوں کہ والد صاحب نے آج تک ہمیں اس حساب کی کاپی فراہم نہیں کی تھی بڑی کوشش اور درخواستوں کے بعد والد صاحب نے یہ کاپی دی ہے جسکو کتابی شکل میں ان شاءالله بہت جلد عوام کے سامنےرکھ دیاجائےگا،

اوراس وقت آپکا فرض ہوگا کہ اس قومی اور دینی ورثہ کی حفاظت کریں، 

اب سمجھ میں آرہاہے کہ والد صاحب کو کیوں دفتر میں برداشت نہیں کیاجارہا اور انکو مدرسہ سے ہٹانے کی سازشیں کی جارہی ہیں

لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ دھوکہ دہی بہرحال ایکدن آشکار ہوہی جاتی ہے

جھوٹے کا منھ کالا ہوتاہے

اور سچ کا بول بالاہوتاہے

محمد صدیق مقیم حال دوحہ قطر

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے