جنت کے بازار

جنت کے  بازار

اہل جنت اپنے ٹھکانوں پر واپس پہنچیں گے تو ان کی بیویاں اور حور یں ان سے کہیں گی کہ آج کیا بات ہوئی کہ تمہارا حسن و جمال پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے، آج تو تم بہت حسین و جمیل بن کر لوٹے ہو، جواب میں اہلِ جنت اپنی بیویوں سے کہیں گے کہ ہم تمہیں جس حالت میں چھوڑ کر گئے تھے ، تم اس سے کہیں حسین و جمیل اور خوبصورت نظر آ ہی ہو 

ان کی بیویاں اور حور یں ان سے کہیں گی کہ آج کیا بات ہوئی کہ تمہارا حسن و جمال پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے، آج تو تم بہت حسین و جمیل بن کر لوٹے ہو


ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعید بن مسیب جو بڑے درجے کے تابعین میں سے ہیں اور بڑے اولیاء اللہ میں سے ہیں، حضرت ابو ہریرہ کے شاگرد ہیں۔

وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے استاد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کے دن کسی بازارمیں چلا گیا، ان کو کوئی چیز خریدنی تھی، چنانچہ بازار جا کر وہ چیز خرید لی۔

جب بازار سے واپس لوٹنے لگے تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا اے سعد! میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں دونوں کو جنت کے بازار میں جمع کردے۔

حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان دیکھئے کہ وہ ہر آن اور ہر لمحے آخرت کی کوئی نہ کوئی بات  نکال کر اس کے دھیان کو اور اس کے ذکر کو تازہ کرتے رہتے تھے ۔

تاکہ دنیا کی مشغولیات انسان کو اس طرح اپنے اندر مشغول نہ کر دیں کہ انسان آخرت کو بھول جائے ۔

لہذا دنیا کا کام کر رہے ہیں، بازار میں خریداری کر رہے ہیں ، اور خریداری کے دوران شاگرد کے سامنے یہ دعا کر دی۔

حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے

پوچھا کہ کیا جنت میں بھی بازار ہوں گے؟ اس لیے کہ ہم نے سنا ہے کہ جنت میں ہر چیز مفت ملے گی، اور بازار میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔

جواب میں حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ وہاں پر بھی بازار ہوں گے ،میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر جمعہ کے دن جنت میں اہلِ جنت کے لیے بازار لگا کرے گا۔

پھر اس کی تفصیل حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جب اہل جنت، جنت میں چلے جائیں گے اور سب لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جائیں گے، اور خوب عیش و آرام سے زندگی گزار رہے ہوں گے اور وہاں ان کو اتنی نعمتیں دی جائیں گی کہ وہاں سے کہیں اور جانے کا تصور بھی نہیں کریں گے۔

تو اچانک یہ اعلان ہوگا کہ تمام اہل جنت کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے ٹھکانوں سے باہر آجائیں، اور ایک بازار کی طرف چلیں ، چنانچہ اہل ِجنت اپنے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلیں گے اور بازار کی طرف چل پڑیں گے، وہاں جا کر ایک ایسا بازار دیکھیں گے جس میں ایسی عجیب و غریب اشیاء نظر آئیں کی جو اہل جنت نے اس سے پہلے کبھی دیکھی نہیں ہوں گی ، اور ان اشیاء کی دکانیں بھی ہوں گی لیکن خرید و فروخت نہیں ہوگی، بلکہ یہ اعلان ہوگا کہ  اہل جنت میں سے جسکو جو چیز پسند ہو وہ دکان سے اٹھالے اور لے جائے ۔

 چنانچہ اہل جنت ایک طرف سے دوسری طرف بازار میں دکانوں کے اندر عجیب و غریب اشیاء کا نظارہ کرتے ہوئے جائیں گے، اور ایک سے ایک نعمت ان کو نظر آئے گی ،اور جس کو جو چیز پسند آئے گی وہ اس کو اٹھا کر لے جائے گا، جب بازار کی خریداری ختم ہو جائے گی تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے طرف سے یہ اعلان ہوگا کہ سب لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے دربار میں ایک اجتماع ہوگا، اور  کہا جائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ جب تم دنیا میں تھے تو وہاں جمعہ کا دن آیا کرتا تھا،اور تم لوگ جمعہ کی نماز کے لیے اپنے گھروں سے نکل کر ایک جگہ جمع ہوا کرتے تھے، بس آج جمعہ کے اجتماع کا بدل جنت کے اس اجتماع کی صورت میں عطا فرما رہے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا دربار لگا ہوا ہے وہاں پر حاضر ہونے کی دعوت دی جا رہی ہے ۔

 چنانچہ تمام اہل جنت اللہ تعالیٰ کے اس دربار میں پہنچیں گے،اس دربار میں ہر شخص کے لیے پہلے سے کرسیاں لگی ہوں گی، کسی کی کرسی جواہر سے بنی ہوگی، کسی کی کرسی سونے سے بنی ہوئی ،اوربعض کی کرسی موتیوں سے بنی ہوں گی۔

 جو شخص جتنا اعلیٰ درجے کا ہوگا اس کی کرسی اتنی ہی شاندار ہوگی ، ان پر اہل جنت کو بٹھایا جائے گا، اور ہر شخص اپنی کرسی کو اتنا اچھا سمجھے گا کہ اس کو یہ حسرت نہیں ہوگی کہ کاش مجھے ویسی کرسی مل جاتی جیسے فلاں شخص کی کرسی ہے،یعنی جنت میں حسد اور محرومی کا احساس نہیں ہوگا،اورنا ہی غم اور حسرت کا کوئی تصور  ہے، اس لیے اس کو عمدہ کی خواہش ہی نہیں ہوگی۔

اور جنت میں جو سب سے کم رتبے کے لوگ ہوں گے ان کے لیے کرسیوں کے ارگرد مشک و عنبر کے ٹیلے ہوں گے، ان ٹیلوں پر ان کی نشستیں مقرر ہوں گی اس پر ان کو بٹھا دیا جائے گا ، جب سب اہل جنت اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں گے تو اس دربار ِخداوندی کا آغاز اس طرح ہوگا کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام ( جنہوں نے قیامت کا صور پھونکا تھا ) سے اللہ تعالیٰ ایسے لحن میں اپنا کلام اور نغمہ سنوائیں گے کہ ساری دنیا کے لحن اور موسیقیاں اس کے سامنے ہیچ اور کمتر ہوں گے۔ نغمہ اور کلام سنوانے کے بعد آسمان پر بادل چھا جائیں گے ،جیسے گھٹا آجاتی ہے اور ایسا محسوس ہوگا کہ اب بارش ہونے والی ہے، لوگ ان بادلوں کی طرف دیکھ رہے ہوں گے، اتنے میں تمام اہلِ دربار کے اوپر مشک اور زعفران کا چھڑکاؤ ان بادلوں سے کیا جائے گا، اور اس کے نتیجے میں خوشبو سے پورا در بار مہک جائے گا اور وہ خوشبو ایسی ہو گی کہ اس سے پہلے نہ کسی نے سونگھی ہوگی اور نہ اس کا تصور کیا ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک ہوا چلے گی اور اس ہوا کے چلنے کے نتیجے میں ہر انسان کو ایسی فرحت اور نشاط حاصل ہوگا کہ اس کی وجہ سے اس کا حسن و جمال دو بالا ہو جائے گا، اس کی صورت اور اس کا سراپا پہلے سے کہیں زیادہ حسین اور خوب صورت ہو جائے گا، پھر اللہ تعالی کی طرف سے جنت کا مشروب تمام حاضرین کو پلایا جائے گا،وہ مشروب ایسا ہوگا کہ دنیا کسی مشروب سے اس کو تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔

 اس کے بعد اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ اے جنت والو! یہ بتاؤ کہ دنیا میں جو ہم نے تم سے وعدہ کئے تھے کہ تمہارے اعمالِ صالحہ اور ایمان کے بدلے میں ہم تمہیں فلاں فلاں نعمتیں دیں گے، کیا وہ ساری نعمتیں تمہیں مل گئیں یا کچھ نعمتیں باقی ہیں؟ تو سارے اہل جنت بیک زبان ہو کر عرض کریں گے کے یا اللہ! ان سے بڑی نعمت اور کیا ہو گی جو آپ نے ہمیں عطا فرمادی ہیں، آپ نے تو سارے وعدے پورے فرمادیئے ، ہمارے تمام اعمال کا بدلہ ہم کومل گیا، ساری نعمتیں ہم کو عطا فرمادیں، اب اس کے بعد ہمیں کسی نعمت کی خواہش نظر نہیں آتی سارے راحتیں حاصل ہو گئیں، ساری لذتیں حاصل ہو گئیں ، اب اور کیا نعمت باقی ہے؟ لیکن روایت میں آتا ہے کہ اس وقت بھی علماء کام آئیں گے، چنانچہ لوگ علماء کی طرف رجوع کریں گے کہ آپ بتائیں کہ کونسی نعمت ایسی ہے جو ابھی باقی رہ گئی ہے اور ہمیں نہیں ملی ہے؟ چنانچہ علماء بتا ئیں گے کہ ایک نعمت باقی ہے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگو، وہ ہے اللہ تعالیٰ کا دیدار۔

 چنانچہ تمام اہل جنت بیک زبان ہو کر عرض کریں گے کہ یا اللہ ، ایک عظیم نعمت تو ابھی باقی ہے، وہ ہے آپ کا دیدار، اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہاں تمہاری یہ نعمت باقی ہے، اب تمہیں اس نعمت سے سرفراز کیا جاتا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنا جلوہ تمام اہل جنت کو دکھا ئیں گے ، اور اس جلوہ کو دیکھنے کے بعد ہر اہلِ جنت یہ محسوس کرے گا کہ ساری نعمتیں جو اس سے پہلے دی گئی تھیں وہ اس عظیم نعمت کے آگے، ہیچ در ہیچ ہیں، اس سے بڑی نعمت کوئی اور نہیں ہوسکتی، دیدار کی نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد اس دربار کا اختتام ہوگا، اور پھر تمام اہلِ جنت اپنے ٹھکانوں کی طرف واپس چلے جائیں گے۔

جب وہ اہل جنت اپنے ٹھکانوں پر واپس پہنچیں گے تو ان کی بیویاں اور حور یں ان سے کہیں گی کہ آج کیا بات ہوئی کہ تمہارا حسن و جمال پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے، آج تو تم بہت حسین و جمیل بن کر لوٹے ہو، جواب میں اہلِ جنت اپنی بیویوں سے کہیں گے کہ ہم تمہیں جس حالت میں چھوڑ کر گئے تھے ، تم اس سے کہیں حسین و جمیل اور خوبصورت نظر آ ہی ہو ۔

حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں کے حسن و جمال میں اضافہ اس خوشگوار ہوا کی بدولت ہوگا جو اللہ تعالی نے چلائی تھی۔

بہر حال، یہ جنت میں جمعہ کے دن کے اجتماع اور در بارِ خداوندی کی ایک چھوٹی سی منظر کشی ہے، جو اللہ تعالی اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں کو عطا فرمائیں گے، اللہ تعالی ہم سب کو بھی اس کا کچھ حصہ عطا فرمادے۔ آمین۔

خطبات حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب سے لیاگیا اور کچھ تبدیلی کی گئی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے