مدرسہ جامعہ عربیہ رحمانیہ ٹانڈہ بادلی ضلع رامپور کے حساب کا اصل معاملہ کیاہے؟

مدرسہ جامعہ عربیہ رحمانیہ ٹانڈہ بادلی ضلع رامپور کے حساب کا اصل معاملہ کیاہے؟
 مدرسہ جامعہ عربیہ رحمانیہ ٹانڈہ بادلی ضلع رامپور کے حساب کا اصل معاملہ کیاہے؟

طویل عرصہ سے عوامی پلیٹ فارم پر مدرسہ جامعہ اسلامیہ عربیہ رحمانیہ ٹانڈہ باد لی ضلع رامپور  کے حساب  میں ہوئی مالی خرد بردکو لے کر کافی باتیں چل رہی ہیں ، مدرسہ کے محبین اور خیر خواہ حضرات مستقل فون کر کے معلوم کر رہے ہیں کہ معاملہ آخر کیا ہے، ہر فرد کو الگ الگ معاملے کی نوعیت کو سمجھانا مشکل تھا اسلئے یہ مختصروڈ یو جاری کیا جا رہا ہے، تاکہ ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کا جواب سامنے آجائے ۔

اورمدرسہ رحمانیہ میں ہونے والی مالی خوردبرد کے بارے میں بھی عوام کو معلوم ہو ،تاکہ ہماری بستی کا یہ قدیم دینی ادارہ اپنی شناخت اور مقصد پر قائم رہ سکے۔

بات اس وقت شروع ہوئی  جب مدرسہ رحمانیہ کے موجودہ مہتمم مولانا جلیس  صاحب اورمرحوم محمود الظفر رحمانی کا مدرسہ میں اختیارات کو لے کرشدید اختلاف ہوا ۔

مگر اس سے پہلے میں مختصر تفصیل کے ساتھ والد صاحب   اور مدرسے کا تعلق بتادوں،

 میرے والد  حافظ محمد شفیق صاحب نے مدرسہ رحمانیہ کو بحیثیت ناظم  دفتر1 مئی1994کو جوائن کیا،اس وقت مدرسہ کے مہتمم  جناب حافظ عبدالغفور صاحب تھے، ان کے انتقال کے بعد مولانا عبدالرؤف صاحب قاسمی کو مدرسے کا مہتمم بنایا گیا جن کے دورِاہتمام میں مدرسہ تعلیمی اعتبار سے پورے علاقے اور ملک کے اکثرمقامات پر اپنا ایک مقام رکھتا تھا، اسی درمیان کچھ وجوہات کی بنا پر مدرسہ کے سرپرست جناب حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کی طرف سے ان کے صاحبزادے جناب مولانا حبیب اللہ صاحب کو مدرسہ کے انتظامی امور سنبھالنے کے لئے بھیجا گیا ، ان کے دورِا نتظام میں مدرسہ  نےہر اعتبار سے کافی ترقی کی، جہاں مدرسہ ترقی کی طرف گامزن تھا وہیں علاقے میں مولانا حبیب اللہ صاحب کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا تھا، ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا، اور اکثر علاقہ مدرسہ اور مولانا سے جڑنے لگا تھا۔

مگر ٹانڈہ کی ایک سیاسی شخصیت کو یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوا،اور انہوں نے مولانا کے خلاف سازشی طور پرماحول بنانا شروع کرد یا، کیونکہ ان کو خطرہ ہونے لگا تھا کہ عوام اور خواص میں مقبول مولانا حبیب اللہ کہیں ان کی سیاست پراثراندازنا ہو جائیں۔

  اورپھران  سازشوں کے نتیجے میں مولانا حبیب اللہ صاحب کو دیوبند واپس جانا پڑا، اس کے بعد مولانا عبدالرؤف صاحب قاسمی نے بھی مدرسہ سے استعفی دے دیا۔

مدرسہ کے موجودہ مہتمم مولانا جلیس احمد صاحب کیونکہ اساتذہ کے درمیان صاحب ِتقویٰ استاد سمجھے جاتے تھے، اسی لیے تمام اساتذہ کی تحریک پرانکو تین سال کی مدت کیلئے عارضی  طور پر مدرسہ رحمانیہ کی تاریخ میں پہلی بار تنخواہ دارمہتمم بنا دیا گیا،اور یہیں سے مدرسہ  رحمانیہ کی اپنی سنہری  تاریخ ختم اور ایک نیا دور شروع ہوا ،جو مالی خردبرد ،اساتذہ کا ستحصال، اور تعلیمی تنزلی پر مبنی ہے،والد صاحب ادارے میں ناظم دفتر کی حیثیت سےمستقل اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے کہ اچانک  22 اکتوبر2009 کو والد محترم کو دل کا دورہ پڑا اور10اپریل2010 کو دہلی کے میکس ہسپتال میں بائی پاس سرجری ہوئی ،جس کی وجہ سے والد صاحب ایک سال رخصت ِعلالت پر رہے جو ریکارڈ میں موجود ہے ۔

 رخصت علالت  کے بعد جب والد صاحب مدرسہ گئے تو وہاں معاونِ دفتر کی حیثیت سے مولوی محمد انیس ساکن محلہ بھبل پوری ، کا تقرر کیا گیا، چنانچہ بیماری اور کمزوری کی وجہ سے مدرسہ کی تحویل اور دفتر کی چابیاں اور اور مالی لین دین سب مولوی انیس کے حوالے  کر دی گئیں، اس وقت سے اب تک والد محترم کا مدرسہ کی تحویل یعنی رقم اور لین دین سے کوئی تعلق نہیں رہا،یہ ہےمدرسہ رحمانیہ کے ساتھ والد صاحب کا تعلق ۔

اور اس کے بعد سے وہ سب شروع ہوا جو اس وقت سوشل میڈیا اور عوام کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے، جیسا کہ میں نے ویڈیو کے شروع میں بتایا تھا کہ یہ معاملہ محمودالظفررحمانی اور مولوی جلیس  صاحب کے درمیان اختیارات کو لے کر شروع ہوا تھا،

یہ 2017 کی بات ہے جب ان دونوں کے درمیان  اختیارات کو لے کرشدید اختلاف ہوا ،اورمحمودالظفر رحمانی  نے مولانا جلیس صاحب سے  2007  سے 2018 تک 12 سال کے حساب کا مطالبہ کیااورسختی کے ساتھ کہا کہ میں آپ سے پائی پائی کاحساب لونگا، اور جامعہ کی شوریٰ طلب کی ،معاملہ کی حساسیت  کو دیکھتے ہوئے مجلسِ شوریٰ نے حساب کی جانچ کیلئے پانچ رکنی کمیٹی قائم کی۔

پانچ رکنی کمیٹی کے ارکان کے نام مندرجہ ذیل ہیں

 مرحوم(سابق چئرمین ٹانڈہ بادلی ) محمودالظفررحمانی صاحب

حافظ محمد شفیق ناظم دفتر جامعہ (حساب چیک کرنے کی ذمہ داری بھی حافظ صاحب کی تھی)

مولانا عبدالناصر صاحب نائب مہتمم جامعہ اسلامیہ مدرسہ شاہی مرادآباد 

 حاجی جلیس احمد صاحب محلہ برگد

حاجی محمد زبیر صاحب محلہ مسجد کہنہ

اس پانچ رکنی جانچ کمیٹی میں والد صاحب کا نام ناظم دفترکی حیثیت سے سرفہرست رکھاگیا اوریہ ذمہ داری دی گئی کہ مکمل حساب کی جانچ کرکے اپنی رپورٹ کمیٹی کے ارکان کے سامنے پیش کریں ۔

والدصاحب نے تقریباً ایک سال   تک رات ودن بغیرآرام کئے کڑی محنت ومشقت  سے بارہ سال کا حساب مکمل چیک کیا،حساب چیک کرنے میں والد صاحب کو بڑی دشواریوں کا سامنا بھی ہوا کیوں کہ حساب میں مالی غبن بہت زیادہ تھا ،اور اس غبن کو چھپانے کیلئے حساب کو بڑی حد تک خلط ملط کردیاگیاتھا ،فائنل رپورٹ  پروالد صاحب کی حیرت  کی انتہانہ رہی کہ ایک مذہبی ادارے میں بھی اسقدر مالی خیانت کوئی کرسکتاہے ۔

بہرحال والد صاحب نے اپناکام ایمانداری کے ساتھ مکمل کیا،محمودالظفررحمانی کیونکہ کمیٹی کے صدر تھے اس لیے والد صاحب نے حساب کی اصلی  کاپی بغیرکسی تاخیر کےان کے حوالے کردی ، اور کمیٹی کے تمام ممبران تک بھی اس کی ایک ایک  کاپی پہنچادی، تاکہ شوریٰ  کی طرف سے دی گئی ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکیں، محمود الظفررحمانی  کوحساب کی کاپی دینے کے بعد والد صاحب یہی سمجھتے رہے کہ میری ذمہ داری ختم ہو چکی ہے اور اب شوریٰ کا کام ہے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنا یا اس پر ایکشن لینا، کیونکہ حساب کے اندر بہت زیادہ مالی خردبرد سامنے آیاتھا، یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ آخر رحمانی صاحب نے حساب کی کاپی کو کیوں دبا کر اپنے پاس رکھا، شوریٰ میں کیوں پیش نہیں کیا ،یہاں تک کہ کئی سال کے بعد جب والد صاحب سے مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری نے معلوم کیا کہ

کے شوریٰ کی طرف سے حساب تیار کرنے کی ذمہ داری جو آپ کو دی گئی تھی اس کا کیا ہوا، تو والد صاحب نے بتایا کہ وہ تو میں بہت پہلے محمود صاحب کے حوالے کر چکا ہوں اور کمیٹی کے دوسرے ممبران کو بھی اس کی خبر ہے یہاں محمود صاحب نے جھوٹ بولا کہ میرے پاس کوئی حساب کی کاپی نہیں آئی ہے،محمود  صاحب کی طرف سے اتنا بڑا جھوٹ سامنے آیا تو والد صاحب نے انکا جھوٹ سب کے سامنے آشکار کردیااور  محمود صاحب  پنے جھوٹ کو سچ ثابت ناکرسکے، اور والد صاحب کی مخالفت پر اتر آئے، جبکہ شوریٰ کی طرف سے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کمیٹی کو بھی حساب کے بارے میں سب معلوم تھا اورتمام حساب سب کے سامنے آچکا تھا،بالآخر والد صاحب کی مخالفت  میں محمود صاحب اس قدر آگے بڑھ گئے کہ موجودہ مہتمم مولانا جلیس  صاحب کو بلیک میل کرکے اپنے ساتھ ملایاکیونکہ  مدرسہ کے اوپراپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے ہی محمود صاحب نے مولانا جلیس  صاحب کے خلاف کمیٹی بنوائی تھی، اور جب حساب میں خردبرد سامنے آئی  تو رحمانی صاحب کی جیسے مراد بر آئی، اسی لیے انہوں نے مولوی جلیس  صاحب کو ہر موقع پر اسی حساب کا  حوالہ دیکر اپنے مفادات کیلئے ستعمال کیا والد صاحب کیونکہ سب جانتے تھے اس لئے ضروری تھا کہ والد صاحب کو مدرسہ سے الگ کیا جائے ،تاکہ  رحمانی صاحب کاتسلط برقرار  رہ سکے ،اس سے پہلے کہ والد صاحب کے خلاف ان کی سازش کام کرتی محمود صاحب کا انتقال ہوگیا ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے،محمود صاحب کے انتقال کے بعد یقیناً مولانا جلیس  صاحب کو راحت ملی مگر وہ والد صاحب سے خوفزدہ تھے،

کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حساب میں مالی غبن پکڑاگیاہےاور اسکی مکمل رپور ٹ ہمارے والد صاحب کے پاس موجود ہے،اسی لئےوالدصاحب کو  مدرسہ سے نکالنے کیلئے سرگرم عمل ہوگئے ،اور بالآخر شوریٰ  کو اپنے ساتھ ملا کر والد صاحب کا کا نام بغیر کسی اطلاع  کے رجسٹر حاضری سے نکلوا دیا، اور مشہور کرنا چاہا کہ حافظ محمد شفیق  نے استعفی دے دیا ہے، جبکہ ایسا بالکل نہیں تھا ،والدصاحب کو جب اسکے بارے میں معلوم ہوا تو والد صاحب کیوں کہ دل کے مریض ہیں ان کو کافی اذیت  پہنچی اس کے باوجودمولوی جلیس صاحب  کی طرف سے اپنے خلاف ہونے والی  اس انتقامی  کاروائی کوباضابطہ  مدرسہ کے لیٹرپیڈپر لکھ کر دینے کا مطالبہ کیا اور یہ مطالبہ آج تک قائم ہے ،

مگر شوریٰ  اور مہتمم اس پر راضی نہیں ہیں،جبکہ  شوریٰ  کی طرف سے باضابطہ والد صاحب کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ والد صاحب کو مدرسہ سے الگ کیا گیا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ والد صاحب مدرسہ سے اپنی خدمات ختم کر دیں،

ہم نے ہر چند کوشش کی کہ رحمانیہ کے اس مسئلہ کوکسی بھی ہنگامی شکل سے بچاکرصرف  شوریٰ کے ذریعہ حل کیاجائے ،اور جو لوگ حساب میں خرد برد کرنے والے ہیں ان سے جواب طلب کرکے مدرسہ کو مزید مالی نقصانات سے بچایا جاسکے،اور حساب میں کی گئی خرد برد کو عوام کے سامنے نا لایاجائے، کہ اس سے باقی علماء اور اہل مدارس کے تئیں عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی،

اسکے لئے ہم دس مہینوں سے محنت کر رہے ہیں ،ہم نے شوریٰ کے ممبران سے بھی ملاقاتیں کیں ، اور بستی کے ذمہ دارعلماء سے بھی رابطے کئے ، مگر لگتاہے کہ یہ ہماری خام خیالی تھی  ،کیونکہ بستی کے ذمہ دار علماء جب مولانا جلیس صاحب سے ملے تو کہنے لگے کہ یہ شوریٰ کا فیصلہ ہے ،اور شوریٰ کہتی رہی کہ مولوی جلیس نہیں مان رہے ہیں،

شاید شوریٰ کی اسی سردمہری اور اپنے پیچھے بظاہر کھڑے خاندان کو دیکھ کر مہتمم مدرسہ رحمانیہ غرور وکبر میں دور تک جاچکے ہیں ،اوراپنی زبان سے  یہ الفاظ اداکررہے ہیں  کہ میں مالدار اور خاندانی شخص ہوں میراکوئی کیا بگاڑسکے گا،مگروہ یہ بھول گئے کہ یہ دینی مدارس میرے رب کی ملکیت ہیں اور انکی حفاظت بھی وہ اچھی طرح کرنا جانتاہے ، خاندان بڑاہونا یا کسی کا مالدار ہونا اسکے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتاجب وہ پکڑنے پر آتاہے تو اسکی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے،

بہرحال جب ہمیں یہ اندازہ ہواکہ مدرسہ رحمانیہ کو اب صرف ایک ہی صورت میں بچایاسکتاہے کہ اس تمام قضیے کو عوام کے سامنے رکھ دیا جائے،

کیونکہ یہ قیمتی اثاثہ ہماری بستی کے بچوں کے مستقبل کامحافظ ہے اور اکابرین ہندوستان کی نظر کرم ہر دور میں اس ادارے پر رہی ہے ،

آپکو حیرت ہوگی کہ مدرسہ رحمانیہ کےصرف ایک مہینے کے حساب میں ایک لاکھ بانوے ہزار تین سو اٹہتر 192378روپئے کا فرق ہے

سوچئے مکمل حساب کا کیاحال ہوگا آپ اندازہ کر سکتے ہیں؟  کہ کس طرح قوم کے دیے ہوئے مال میں خرد برد کی گئی ہے،

اب سمجھ میں آرہاہے کہ والد صاحب کو کیوں دفتر میں برداشت نہیں کیاجارہا اور انکو مدرسہ سے ہٹانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔

لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ دھوکہ دہی بہرحال ایکدن آشکار ہوہی جاتی ہے

یہ ہماری طرف سے آخری کوشش ہے اس مسئلہ کو شوریٰ کے ذریعہ حل کرنے کی اگر اسکے بعد بھی شوریٰ اپنا کام نہیں کرتی ہے تو مجبوراًہمیں اپنے طورپر اس کام کوکرنا پڑےگا، پھر ہم سے کوئی بھی بستی کافرد یا علماء یہ ناکہیں کہ ہم نے خود سے یہ قدم کیوں اٹھایا

والسلام 

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے