وزیر خارجہ کی تشریف آوری کا آنکھوں دیکھا حال

 وزیرِ خارجہ مولانا امیر خان متقی کی دارالعلوم دیوبند آمد ایک تاریخی و روحانی منظر کا آنکھوں دیکھا حال

سید فضیل احمد ناصری

آل سید شہاب الدین کبیر زاہدی سابق امام خانۂ کعبہ

ڈائریکٹر امام کعبہ اکیڈمی، دیوبند

On 11 October 2025, Afghan Foreign Minister Mawlana Amir Khan Muttaqi’s visit to Darul Uloom Deoband became a historic moment. An eyewitness account by Sayyid Fazil Ahmad Nasari captures the passionate welcome by scholars and students, and his participation in the Dars-e-Bukhari session.


پرسوں کی تاریخ یعنی 11/ اکتوبر 2025/ ایک یادگار تاریخ بن گئی۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ مولانا امیر خان متقی صاحب نہ صرف یہ کہ دارالعلوم دیوبند تشریف لائے، بلکہ کئی لازوال نقوش ثبت بھی کر گئے۔ علما و طلبہ کی دیوانگی برسوں یاد رکھی جائے گی۔ ان کا شوق زیارت دیدنی تھا۔ ایک خوش گوار سماں دارالعلوم کے در و دیوار سے ٹکرا رہا تھا۔ دل جذبات سے لبریز۔ دماغ فرطِ محبت سے معمور۔ متقی صاحب کی شخصیت سحر انگیز۔ استعداد گوناگوں۔ دراز قد۔ خوب صورت اور سیاہ گھنی  داڑھی۔ بھنویں شمشیر و سناں۔ آنکھیں رعب دار اور مدہش۔ عالمانہ وجاہت۔ مجاہدانہ شوکت۔ حلم و تحمل۔ تدبیر و تدبر ان کے جلو میں۔ مہمان مکرم کی ذات گرامی امتیازات و ممیزات سے عبارت نظر آئی۔ وہ ایک جانب عالم دین ہیں۔ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فاضل۔ وہیں افغانستان کی نئی نویلی حکومت امارت اسلامیہ کے وزیر خارجہ بھی۔ جب ان کی آمد کی خبر سوشل میڈیا میں نشر ہوئی تو یہ اس اعتبار سے حیرت انگیز تھی کہ وہ اس حکومت کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے تشریف لا رہے ہیں جو طالبان کے زیر انتظام چلتی ہے۔ جی ہاں وہی طالبان، جو ایک عرصے تک پوری دنیا میں انتہائی مبغوض تھے۔ روس اور امریکہ سے کشمکش کے بعد تو لفظ طالبان کا استعمال بھی شجر ممنوعہ بن چکا تھا۔ کوئی بھی اس لفظ کا تلفظ کرتا تو اس کی جان پر بن آتی۔ بے درماں بلائیں اس کے گھر کا طواف کرتیں؛ لیکن امریکہ اور مغربی دنیا سے دہائیوں کی جنگ کے بعد منظر نامہ کچھ ایسا تبدیل ہوا کہ لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ طالبانی مزاحمتوں سے تنگ آ کر امریکہ کے مسلط کردہ صدر ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ طالبان نے باقاعدہ عنان سلطنت ہاتھ میں لے لی۔ اگست کا مہینہ تھا اور تاریخ تھی 15/۔ اس کے بعد پھر یہ نام اس طرح زیر گردش رہا کہ تجزیہ نگار اور مبصرین حیران تھے کہ اس نام کا استعمال کیا جائے یا نہیں؟ بعضوں نے ہمت کر کے ان کا نام لے لیا تو انہیں غدار وطن کی حیثیت دے دی گئی۔ ہندوستان کا میڈیا کچھ زیادہ ہی آگ اگلتا رہا۔

چند سالوں کے بعد حالات نے پھر کروٹ لی۔ ہندوستان سے تعلقات کی راہیں ہموار ہونے لگیں۔ انڈین عہدے دار جب افغانستان کے دورے پر گئے اور افغان وزیر خارجہ کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تو اندازہ یہی تھا کہ غالباً یہ دعوت صدا بہ صحرا ثابت ہوگی، لیکن افغانی وزیر خارجہ ہندوستان تشریف لائے اور دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر کے رکھ دیا۔ ان کا یہ دورہ 9/ اکتوبر سے شروع ہو کر 16/ اکتوبر تک چلے گا۔ عالمی میڈیا سخت حیران ہے اور عالمی سیاست دان بھی کہ یہ کیا اور کیسے ہو گیا! یہ طالبانی حکومت کا سب سے پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہے۔

افغانی وزیر خارجہ مولانا امیر خان متقی صاحب ہندوستان تشریف لائے تو انہوں نے دارالعلوم دیوبند دیکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کر دیا۔ ہندوستانی حکومت نے بھی ان کے احترام میں کوئی کمی نہیں کی اور اس کی نگرانی میں ہی انہوں نے دہلی سے دیوبند کا سفر کیا۔ وہ بھی مکمل پروٹوکول کے ساتھ۔ وہ آئے تو ان کے ساتھ قافلے میں شریک رکن کا بیان ہے کہ روہانہ ٹول پلازہ کے پاس انہوں نے اپنی گاڑی رکوائی۔ ہوٹل میں گئے اور وضو کر کے اپنی گاڑی پر سوار ہوئے۔ ان کی خواہش تھی کہ دار العلوم جائیں تو اس شان کے ساتھ کہ وہ باوضو ہوں اور تمام زیارتیں حالت طہارت میں کی جائیں۔

 دارالعلوم دیوبند کی جانب سے اس موقع پر مختلف اعلانات آئے۔ ان میں سے ایک اعلان طلبہ کے نام بھی تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ مہمان کی آمد پر وہ جی ٹی روڈ پر استقبال کے لیے کھڑے ہوں اور نعرے بازی سے دور رہیں۔ پروگرام کی جو ترتیب سوشل میڈیا پر نشر ہوئی تھی اس کے مطابق ان کی آمد نو بجے ہوگی اور وہ آتے ہی دارالحدیث دارالعلوم کے دارالحدیث جائیں گے جہاں مہتمم صاحب زید مجدہم کے درس بخاری میں شریک ہو کر ان سے اجازت حدیث لیں گے۔

 وزیر موصوف 9/ اکتوبر کو ہندوستان تشریف لائے۔ ان کی ترتیب سفر دیوبند آمد سے دو دن پہلے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی اور لوگ اظہار مسرت کرتے ہوئے یہ خبر دوسروں تک پہونچا رہے تھے۔ دیوبند اور اطراف دیوبند میں عید کا منظر تھا۔ سب کی زبان پر اسی کا چرچا۔ اندازہ یہی تھا کہ ہجوم ہوگا اور لوگ بڑی تعداد میں دارالعلوم آئیں گے، کیونکہ آمد ایک وزیر کی نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کی تھی جو اسم بامسمی ہے۔ متقی ان کا نام بھی ہے اور متقی ان کی صفت بھی۔ وہ عالم دین بھی ہیں اور عامل صالح بھی۔ وہ اس کاروان عزیمت سے تعلق رکھتے ہیں، جس کی تعریف اللہ تعالی نے کی۔ رسول علیہ السلام نے فرمائی۔ آیات قرانیہ و احادیث نبویہ کا ایک بھرپور مصداق ان کے سامنے آنے والا تھا۔ اسے ہی دیکھنے کو علما و طلبہ سراپا اشتیاق بنے کھڑے تھے۔

11/ ویں اکتوبر کا سورج طلوع ہوا۔ آج فضائیں خوش گوار تھیں۔ ہوائیں مشک بار۔ پھول تو پھول، کانٹے بھی مسکرا رہے تھے۔ علما و طلبہ کا ریلا دارالعلوم کا رخ کرنے لگا۔ دیوبند اور اس کے اطراف سے لوگ جوق در جوق آنے لگے۔ اندازہ تو پہلے ہی تھا کہ بھیڑ ہوگی اور زبردست ہوگی، مگر اس کا اندازہ قطعی نہیں تھا کہ بھیڑ بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کی طرح ہوگی۔ بے کراں، بے قابو اور بے پناہ۔ جو طلبہ جی ٹی روڈ پر استقبال کے لیے مقرر تھے وہ تو تھے ہی، ان کے ماسوا غیر دارالعلومی طلبہ بھی انتظار اور استقبال کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ استقبال کرنے والے دو رویہ کھڑے تھے اور گاڑی بیچ سے گزرنی تھی۔ وزیر موصوف کی گاڑی استقبال کرنے والے طلبہ تک جوں ہی پہونچی، ان پر پھولوں کی برسات ہو گئی۔ ہجوم پروانہ وار امڈ پڑا۔ وزیر موصوف کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب و بے قرار۔ ہجوم کچھ ایسا ٹوٹا کہ صبا رفتار گاڑی چیونٹیوں کی چال سے آگے بڑھنے لگی۔ پولیس انتظامیہ اور ارباب دارالعلوم پریشان تھے کہ کسی طرح اس بھیڑ کو کنٹرول کیا جائے، مگر سب ناکام۔ وزیر موصوف کی گاڑی جیسے تیسے جی ٹی روڈ سے دارالعلوم میں داخل ہوئی اور چیونٹی کی رفتار میں کھسکتے سرکتے مسجد رشید کے آہنی گیٹ سے داخل ہوئی۔ پولیس انتظامیہ بھی مستعد۔ اس نے وزیر موصوف کو شاندار استقبالیہ دینے کے لیے سرخ قالین بچھایا اور گارڈ آف انر پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن وفور شوق سے معمور طلبہ کچھ اس طرح وزیر موصوف پر فدا ہو رہے تھے کہ پولیس انتظامیہ کا سارا پروگرام دھرا کا دھرا رہ گیا، تاہم جیسے تیسے سلامی پیش کر ہی دی۔ گاڑی شیخ الہند لائبریری کی طرف چل دی۔ لائبریری تک پہونچی تو انہیں اتارنا بھی کوہ ہمالیہ سر کرنے کے برابر تھا۔ گاڑی سے نکال کر بمشکل دارالحدیث لے جایا گیا، جہاں وہ استاد کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے:

صحن  چمن کو  اپنی  بہاروں  پہ  ناز تھا

وہ  آ گئے  تو  ساری  بہاروں  پہ چھا  گئے

طلبہ میں ایک جوش اور خروش تھا۔ مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب آج ایک الگ رنگ میں تھے۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ، ان کی پیشانی کی چمک، ان کی زبان حال آج کچھ اور کہہ رہی تھی۔ عموماً وہ دوپلی ٹوپی پہنتے ہیں۔ ہر موسم میں انہیں دوپلی ٹوپی ہی پہنے دیکھا گیا، مگر آج ان کے سر پر ٹوپی نہیں، بلکہ عمامہ تھا، جو غالباً وزیر موصوف کے اعزاز و استقبال میں باندھا گیا تھا۔ مفتی صاحب کا درس ہوا۔ انہوں نے اجازت حدیث زبانی بھی دی اور تحریری بھی، جسے لے کر وزیر موصوف نے اپنے سینے سے لگایا۔ مفتی صاحب کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ چند لمحوں کے لیے تخت پر کھڑے ہوئے اور دارالعلوم و مشتاقین کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب ختم ہوئی تو باب الظاہر ہوتے ہوئے احاطۂ مطبخ اور لائبریری کے دروازوں سے گزار کر باب قاسم اور وہاں سے انہیں مہمان خانہ لے جایا گیا۔ دارالعلوم کے اعلان کے مطابق وہاں صرف 15/ اساتذہ ملاقات کر سکتے تھے، جن میں سب کے سب علیا کے مدرسین تھے۔ دارالحدیث سے مہمان خانے جانے تک وہی کیفیت تھی جو جی ٹی روڈ سے دارالحدیث تک پہونچنے کی تھی۔ آہستہ خرام، بلکہ مخرام۔

ظہر کی نماز مسجد رشید میں ادا کرنی تھی۔ دو بج کر پانچ منٹ پر جماعت کا ٹائم رکھا گیا تھا اور وہیں سے سیدھے دارالحدیث شیخ الہند لائبریری کے دوسرے منزلے پر جانا تھا۔ اعلان کے مطابق ان کا خطاب ڈھائی بجے ہونا تھا۔ یہ ایک جلسۂ عام تھا، جو درحقیقت جلسۂ استقبالیہ تھا اور اس تقریب سے وزیر موصوف کو خطاب بھی کرنا تھا۔

اس تقریب میں شرکت کی میری شدید خواہش تھی۔ ظہر کی نماز میں نے اول وقت میں پڑھ لی تھی، کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ بھیڑ بہت ہوگی اور مسجد رشید میں نماز پڑھ کر شیخ الہند لائبری تک پہونچ پانا مشکل تھا۔ میں ابھی اپنے گھر سے نکلا ہی تھا کہ دارالعلوم کے ایک استاد کا فون آیا کہ مہمان مکرم کا خطابی پروگرام منسوخ ہو چکا ہے، اب آپ آنے کی زحمت نہ کریں۔ مجھے دھچکا لگا۔ ایک سرد آہ کھینچی۔ پھر میں نے اپنے دل کو سمجھایا کہ شاید لوگوں کی شدت اشتیاق کے پیش نظر یہ منسوخی منسوخ ہو جائے اور اجلاس عام بہرحال ہو۔ اس لیے چلنا چاہیے۔ میں چلا۔ معلوم ہوا کہ دارالعلوم کو جانے والے تمام راستے بند ہیں۔ وہ راستہ بھی جو لائبریری سے متصل مغربی سمت کھلتا ہے۔ معراج گیٹ بھی۔ باب قاسم بھی۔ مدنی گیٹ بھی۔ پولیس نے مسجد رشید جانے والے آہنی دروازے پر پڑاؤ ڈال رکھا تھا تو گویا وہ بھی بند ہی تھا۔ میں اور میرے رفقا شاہ ولایت ہوتے ہوئے مسجد چھتہ پہونچے اور اس کے اندرونی دروازے میں داخل ہو کر پتلی گلی سے مطبخ کو نکلے اور وہاں سے قدیم دارالحدیث کی سیدھ سے باب الظاہر کی طرف جانے لگے۔ پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ اس طرح باب الظاہر نہ جائیں، بلکہ دار جدید کی طرف تھوڑا چل کر پارک کے درمیان جو پتلا راستہ ہے، ادھر سے دار جدید کی طرف چل کر باب الظاہر کی طرف مڑ جائیں۔ ہم لوگ ویسے ہی نکلے۔ باب الظاہر جیسے ہی پہونچے تو دیکھا کہ مشتاقوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ابل رہا ہے، اچھل رہا ہے۔ موجیں مار رہا ہے۔ لائبریری کی سیڑھیاں اور اس کا دامن جبل رحمت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ طلبہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں۔ پارک کا علاقہ خالی تھا۔ وہاں دیکھا کہ کچھ لوگ جماعت کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے۔ پورا مجمع سراپا اشتیاق تھا۔ سب کی آنکھیں باب الظاہر پر ٹکی ہوئی۔ درمیان درمیان میں نعرہ بھی بلند ہو رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ مہمان مکرم کا خطاب ہوگا۔ پھر مجھے کسی نے بتایا کہ وزیر موصوف کی آمد منسوخ ہو چکی ہے۔ بے قابو بھیڑ کی وجہ سے جلسہ گاہ نہیں جا سکیں گے۔ پولیس نے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ ہمارے لیے یہ خبر وحشت اثر تھی، مگر ذہن قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ پھر واٹس ایپ کے بعض گروپوں میں بھی اس منسوخی کی خبر دیکھنے میں آئی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب پروگرام نہیں ہوگا۔ ہم نے سوچا کہ وزیر موصوف کی واپسی مدنی گیٹ ہو کر ہوگی تو کیوں نہ ادھر ہی ڈیرہ جما لیا جائے اور دور سے ہی سہی ان کا دیدار کیا جائے۔ اسی کشمکش میں ہم تھے ہی کہ اتنے میں پتہ چلا کہ مہمان مکرم مدنی گیٹ سے نکل کر اگلی منزل پر روانہ ہو چکے۔

تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل  ابجد

تھا  لکھا  بات کے  بنتے  ہی  جدا  ہو  جانا

لائبریری کے اندر اور باہر باب الظاہر تک کے منتظرین  سراپا امید تھے۔ مہمان کی رخصتی کے بعد بھی جم کر بیٹھے رہے۔ شدہ شدہ خبر عام ہوئی تو مایوسی کی تصویر بنے بوجھل قدموں سے کھسکنے لگے۔ ان کے چہرے اداس تھے۔ کیوں نہ ہوتے، ان کے ارمان پر اوس پڑ چکی تھی۔ بعد میں ویڈیو دیکھا کہ مہمان مکرم مدنی گیٹ سے نکل رہے ہیں۔ مشتاقان دید کو اپنی الوداعی رونمائی کے لیے گاڑی کی چھت ہٹا کر کھڑے ہیں اور دونوں ہاتھ دائیں بائیں لہرا کر علما و طلبہ کی گرم جوشی کا جواب دے رہے ہیں۔ ہائے کیا گھڑیاں تھیں!! بھلائے نہ بھلائی جائیں گی۔ وہ چلے گئے اور میرے ذہن میں یہ مصرع گردش کرتا ہوا:

ترا آنا نہ تھا ظالم، مگر تمہید جانے کی

دارالعلوم میں عالمی شخصیتیں پہلے بھی آئیں۔ میں نے دارالعلوم میں 1996 سے 1998 تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اور اب 2008 سے دیوبند میں ہی تدریسی خدمت انجام دے رہا ہوں۔ اس دوران متعدد عالمی شخصیات کی زیارت کا موقع ملا۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کو بھی دیکھا۔ پیر ذوالفقار نقشبندی کی آمد بھی دیکھی۔ اور اب وزیر موصوف کی جلوہ گری بھی سامنے تھی، لیکن جو بھیڑ وزیر موصوف کے دیدار اور تقریر کے لیے اکٹھی تھی ویسی بھیڑ نہ مفتی محمد تقی عثمانی کی آمد کے موقع پر تھی، نہ پیر ذوالفقار نقشبندی کی آمد پر۔ ان دونوں سے ملاقات بڑی آسانی سے ہو گئی تھی۔ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے تو ان کی فرود گاہ پر ملا بھی تھا۔ اپنے سر پر ہاتھ بھی رکھوایا تھا۔ ایک کاغذ پر ان سے ان کا دستخط بھی لیا تھا۔ ان کو بارہا قریب سے دیکھا۔ پیر ذوالفقار نقشبندی کو نہ صرف یہ کہ دیکھا، بلکہ ان سے مصافحہ بھی کیا۔ ہر ایک بندہ ان دونوں سے ملاقات یا کم از کم دیدار سے مشرف تو ضرور ہوا، لیکن وزیر موصوف کی آمد پر ہجوم کچھ اس قدر تھا کہ عوام کو تو جانے دیجیے، دارالعلوم کے ہی آدھے سے زیادہ اساتذہ ان کی زیارت سے محروم رہے، حالانکہ امیر خان متقی صاحب انٹرنیشنل سطح کے کوئی شہرت یافتہ عالم نہیں تھے، بلکہ ایک وزیر تھے اور وزیر کی حیثیت سے بھی ان کا تعارف پرسوں سے قبل ہندوستان میں نہیں تھا۔ اس کے باوجود علما اور طلبہ کا ان پر گرنا، ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کرنا، ان کی ایک جھلک پانے کے لیے اپنی ساری ترتیب کو الٹ پلٹ کر دینا، ان کے لیے سراپا انتظار بننا اور مشقت کے ہر دریا کو عبور کرنا مجموعۂ حیرت تھا۔ اس وارفتگی اور فدائیت کی وجہ صرف اور صرف ذوالفقار سے لبریز ان کی تاریخ تھی۔ ایک داستانِ شیریں۔ ایک قصۂ کوہ کن۔ وہ کردار، جس کی تعریف قرآن کرتا رہا ہے، جس کو نویدیں حدیثیں دیتی آئی ہیں۔

وزیر موصوف کی آمد پر مسرت تو تھی ہی، بڑی خوشی اس کی تھی کہ وہ اردو بول سکتے تھے۔ ان کی قومی زبان پشتو ہے۔ قومی میڈیا میں ان کے بیانات نشر ہوئے تو دل کو چھو گئے۔ سادہ اور اوبر کھابڑ جملے، تذکیر و تانیث کی قید سے آزاد، مگر پرکار و پر اثر۔ ادبیت کی چاشنی، نہ طلاقت لسانی۔ خوب صورت اشارے، نہ دل کش استعارے، لیکن مزے دار اتنے کہ فصاحت و بلاغت ان پر نثار۔ جی چاہتا تھا کہ سنتے رہیں:

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

مہمان مکرم کی آمد نے ایک نیا لطیفہ بھی ہمیں دے دیا۔ درس بخاری کے بعد انہیں اجازت حدیث ملی۔ اس کا چرچا سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا میں بھی ہوا۔ عوام نے یہ سمجھا کہ ان پر کوئی پابندی تھی، اب اٹھا لی گئی۔ ایک ہندی چینل اے بی پی گنگا نے تو ایک نیا مضمون تراشا اور لکھ مارا کہ وزیر موصوف کو دارالعلوم میں پڑھانے کی اجازت مل گئی، بلکہ تقرری بھی ہو گئی۔ اس کا عنوان تھا: افغانستان کے ودیش منتری دیوبند میں پڑھائیں گے حدیث۔ ملی اجازت۔ غریب کو کیا معلوم کہ اجازت حدیث ایک خاص علمی اصطلاح ہے۔

ان کا دورۂ ہند اب بھی جاری ہے، مگر دیوبند کا دورہ سب سے جدا تھا۔ کرامت ہی کرامت۔ روحانیت سے عبارت۔ نہ وہ بھول سکیں گے، نہ کوئی بھول سکے گا:

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا، ترے ساتھ ایک دنیا تھی


اس مضمون کو کتابی شکل میں ڈاؤنلوڈ کرنے کیلئے نیچے بٹن پر کلک کریں


Amir Khan Muttaqi, Afghan Foreign Minister, Darul Uloom Deoband, Afghanistan India relations, Islamic world news, Taliban government, Deoband visit 2025, Fazil Ahmad Nasari, eyewitness account, Dars-e-Bukhari, Deoband scholars, historic visit