دور صحابہ
کا آدمی
ابوعمرالسوری
غزہ کے خاموش ہیرو اور دورِ صحابہ کے آدمی کی داستان
طوفان الاقصیٰ کے معمار اور امت کے خاموش ہیرو کی شہادت کی مکمل
داستان پڑھیے
تحریر :۔۔۔ ضیاء چترالی
گزشتہ
دنوں شہداء کی سرزمین فلسطین اور غازیوں کے غزہ سے ایک ایسا مردِ مجاہد رخصت ہوا
جس کا اصل
نام بھی بہت سوں کو معلوم نہ تھا، مگر اس کا ذکر رہتی دنیا تک اہلِ عزیمت کے دلوں کو
گرما کر رکھے گا۔
وہ گمنامی میں جیا اور شہادت تک گمنام
ہی رہا۔
گزشتہ
دنوں جب دجالی فوج نے غزہ کے علاقے صبرہ پر بمباری کے بعد اعلان کیا ،
کہ انہوں نے " ابوعمر السوری"
کو نشانہ بنایا ہے،
تو شاید دنیا کی اکثریت کے لیے یہ نام اجنبی ہو،
نہ
کسی ٹی وی اسکرین پر ان کا چہرہ کبھی دکھائی دیا،
نہ کسی
انٹرویو میں آواز سنائی دی،
نہ ہی وہ کبھی کسی فوجی پریڈ یا شہرت کے ہالے میں
نمودار ہوئے،
مگر حقیقت
یہ ہے کہ
ابوعمر السوری " جن کا اصل نام حکم العیسیٰ
تھا، غزہ کی مزاحمت کی عسکری ریڑھ کی ہڈی تھے،
وہ دماغ تھے جس نے صہیونی دشمن کے لیے ایسے پیچیدہ
منصوبے بنائے،
جن سے
دجالی فوج آج تک دہل رہی ہے،
اس مردِ
میدان نے صرف اپنی جان نہیں بلکہ ساری زندگی آزادیِ فلسطین کے خواب پر قربان کر دی،
ابوعمر السوری کی پیدائش 1967ء میں کویت میں ہوئی،
مگر ان کا اصل تعلق فلسطین کے علاقے طولکرم (رامین) سے تھا، انہوں نے اپنی ابتدائی
تعلیم کویت میں عبد اللہ السالم اور العدیلیہ کے اسکولوں میں حاصل کی ،
اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ہندوستان کا رخ کیا،
وہ ان
جوانوں میں سے تھے، جنہوں نے صرف کتابوں سے علم نہیں لیا،
بلکہ دنیا کے ہر اس میدان کو اپنا مکتب بنایا جہاں
مظلوموں کے خون سے تاریخ لکھی جا رہی تھی،
فلسطین
کی محبت ان کے لہو میں رچی بسی تھی، یہ محبت صرف جذباتی وابستگی تک محدود نہ رہی،
بلکہ ایک
واضح فکری اور عسکری نظریہ میں ڈھل گئی،
عراقی حملے کے بعد انہوں نے کویت سے اردن کی طرف
ہجرت کی اور وہاں سے ایک طویل مجاہدانہ سفر کا آغاز کیا۔
افغانستان، چیچنیا، شام، لبنان، ہر وہ میدان جہاں
امت کے زخم لہو رنگ تھے،
ابو عمر
کے قدموں کی خاک سے واقف ہے،
ان کی زندگی ان ممالک میں خفیہ تربیتی اور عسکری
منصوبوں میں گزری،
وہ نہ صرف میدان جنگ کے سپاہی تھے بلکہ عسکری فکر
اور اسٹرٹیجک منصوبہ بندی کے ماہر تھے،
افغانستان
سے غزہ تک، ہر جگہ اُن کی جرات، تدبیر اور قربانی کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں،
وہ ان
تمام محاذوں میں پہنچے، دشمن سے لڑے اور سرخرو ہو کر لوٹے،
مگر غزہ
پہنچ کر بالآخر مقصد زندگی میں کامیاب اور حیات جاوداں سے ہمکنار ہوگئے،
گمنامی سے غزہ تک
ابو عمر 2005 میں شام سے غزہ منتقل ہوا
اُس کا
فیصلہ کوئی سیاسی جلاوطنی نہ تھی،
بلکہ ایک خالص نظریاتی ہجرت تھی،
جس کا مقصد تھا:
فلسطین کی سرزمین پر جہاد و مزاحمت کو
عسکری تربیت، فکری بصیرت اور جدید تنظیمی ڈھانچے
سے آراستہ کرنا۔
اُس نے حماس کے عسکری ونگ قسام بریگیڈز میں عسکری
تربیت کا ایک جامع نظام قائم کیا،
جس کی
بدولت ہزاروں نوجوان مجاہدین نہ صرف جسمانی تربیت یافتہ بنے،
بلکہ فکری اور اخلاقی سطح پر بھی صیقل ہو گئے۔
ابوعمر
نے عسکری اکیڈمی کی بنیاد رکھی، جہاں ان کی بدولت مختلف عسکری شعبہ جات میں تکنیکی
اور سائنسی مہارتیں متعارف کروائی گئیں۔
قـسـام
کی دفاعی و حملہ آور حکمت عملیوں، وائرڈ و وائرلیس کمیونی کیشن، زیر زمین سرنگوں، میزائل
سازی اور جدید ترین عسکری تربیت کے جتنے بھی ماڈل آج غزہ میں فعال ہیں، ان سب میں ابوعمر السوری کا براہ راست حصہ ہے۔
طُوفان الاقصیٰ کے معمار:
7 اکتوبر 2023 کو جب فلسطینی مزاحمت
نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف تاریخ کا عظیم ترین جوابی حملہ "طُوفان الاقصیٰ"
کے نام سے کیا،
تو یہ محض ایک عسکری کارروائی نہ تھی،
بلکہ ایک برسوں کی منصوبہ بندی، بہترین مشق، طویل
صبر اور تیاری کا اعلان تھا۔
اس طوفان
کے معماروں میں ابوعمر السوری
صف اول میں شامل تھے۔
وہ اُن
مٹھی بھر افراد میں سے تھے، جنہوں نے محض دشمن کو للکارا نہیں، بلکہ میدان میں اس کا
عسکری غرور توڑ ڈالا۔
اسرائیل
نے اُنہیں " حماس کے عسکری بانیوں میں سے ایک" قرار دیا۔
وہ 7 اکتوبر 2023 کی "طُوفان الاقصیٰ"
جنگی کارروائی کے منصوبہ سازوں میں سے تھے۔
ان کی
زندگی سادگی، تقویٰ اور خفیہ جہادی عمل سے معمور تھی۔
انہوں نے ہمیشہ غزہ سے نہ نکلنے کا عہد کیا تھا،
اور کہا
کرتے: "جب میں اپنی بیوی اور چھوٹے بچوں کے ساتھ غزہ داخل ہوا، تب ہی عہد کر لیا
تھا کہ یہاں سے صرف دو صورتوں میں نکلوں گا:
یا مغربی کنارے کو آزاد کر کے،
یا جنت الفردوس کو جا کر۔"
عسکری ذمہ داریاں:
شہید حکم العیسیٰ کی عسکری مہارت اور خاموش قیادت
کے باعث انہیں قسام کی عسکری مجلس شوریٰ کا رکن مقرر کیا گیا۔
وہ ہمیشہ
پردے کے پیچھے رہتے اور متعدد کنیتوں سے جانے جاتے:
ابو محمود،
ابو عماد
اور ابو
عمر
تاہم آخر
الذکر کنیت زیادہ مشہور ہوئی
قسام کے
ذرائع کے مطابق، وہ غزہ میں علم و حکمت اور عسکری بصیرت لے کر داخل ہوئے اور جنرل کمانڈر
محمد ضیف سمیت قسام قیادت نے ان کی صلاحیتوں کو عسکری ڈھانچے میں بھرپور انداز میں
استعمال کیا۔
انہوں
نے عسکری شعبوں میں کئی نمایاں خدمات انجام دیں،
مثلاً: غزہ بھر میں مرکزی تربیت
اور تیاری کے سربراہ، فضائی دفاعی نظام کے بانی اور کمانڈر، اسلحہ جات اور مرکزی عسکری
تخصصات کے نگران، دفاعی و مزاحمتی منصوبہ بندی کی مرکزی کمیٹی کے رکن، استخبارات اور
آپریشنز کے سربراہ (2014 کی جنگ کے بعد)، قسام کے عسکری رکن التدريب کے سربراہ اور
عسکری مجلسِ عمومی کے رکن۔
عسکری ترقی کی بنیاد:
ابوعمر نے ایران، روس (چچن)، لبنان اور شام جیسے
علاقوں میں عسکری تربیت حاصل کی اور 2005 میں غزہ پہنچ کر قسام بریگیڈ کی عسکری حکمت
عملی میں پیشہ ورانہ منصوبہ بندی، فیصلہ سازی کا منظم طریقہ کار اور دفاعی و حملہ آور
تیاری کو اعلیٰ سطح پر منظم کیا۔ آپریشن "سیف القدس" (2021) سے قبل تمام
بڑی جنگی تیاریوں میں ان کا کردار نمایاں رہا۔
انہوں نے غزہ کے نوجوانوں کو تربیت دی، ان کی صلاحیتوں
کو نکھارا اور انجینئرنگ، فضائی دفاع، بکتربند اور نشانہ بازی جیسے حساس عسکری شعبوں
میں تکنیکی ترقی میں بھی حصہ لیا۔
شہادت:
" ابوعمر السوری
" نے اسرائیلی زمینی جارحیت کے دوران بھی میدانِ جنگ میں رہتے ہوئے میدانی منصوبہ
بندی کی، اپنی فیملی کے ساتھ بھوک، محاصرے اور بمباری کو برداشت کیا۔
28 جون 2025 کو غزہ کے صبرہ محلے
میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں وہ اپنی اہلیہ اور پوتی کے ساتھ شہید ہو گئے۔
اُس وقت
ان کی عمر 58 برس تھی۔
صہیونی
طیاروں نے صرف ایک وجود کو مارا، فکر، تربیت اور شہادت کے جس تسلسل کو وہ چھوڑ گیا،
وہ آج بھی گونج رہا ہے۔
ایک قدسی صفت مجاہد:
ابو عمر کے قریب رہنے والے کہتے ہیں کہ وہ صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عہد کا آدمی لگتا تھا۔
سادگی،
انکساری،
تقویٰ،
جذبۂ جہاد،
للٰہیت،
یہ سب
اُس کی شخصیت کے نمایاں رنگ تھے۔
وہ اپنے
بستر کی جگہ زمین پر سوتا تھا،
اس لیے کہ آرام کی نرمی کہیں اس کے دل میں دنیا
کی محبت نہ ڈال دے۔
وہ جب
کسی مشن پر جاتا تو کہتا:
"میں یہاں سے صرف دو صورتوں
میں نکلوں گا:
یا تو فلسطین کو آزاد کر کے، یا جنت الفردوس کی
طرف پرواز کر کے۔"
ابوعمر نے نہ شہرت کی طلب کی،
نہ عزت
کے تمغے،
نہ مال
کی طلب،
اُس نے
راکٹ،
بندوق،
سرنگ،
بم ،
اور ہر اس شے میں تخلیق کی روح پھونکی جس کا تعلق
جہاد سے تھا۔
اس کا
کمرہ سادہ، لباس عام، مزاج خاکسار، مگر فکر میں وہ آسمانوں کو چھو رہا تھا۔
خراجِ عقیدت:
جب کوئی مجاہد اس شان سے رخصت ہوتا
ہے، تو تاریخ کا سینہ اُس کے لیے احترام سے جھک جاتا ہے۔
ابو عمر کے بارے میں قدسیوں کا کہنا ہے:
"جب تم شہادت کی خوشبو، بارود کی تپش اور گولیوں کی گھن گرج
محسوس کرو،
تو جان لو کہ تم ایک ایسے انسان کا ذکر کر رہے ہو
جس نے رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کفر کو ہر میدان میں لرزا دیا۔"
کچھ نے یوں خراج عقیدت پیش کیا:
"وہ سوار اپنی سواری سے اس وقت اُترا جب وہ ہر میدان میں گھوم چکا تھا،
افغانستان، چیچنیا، شام، لبنان اور غزہ کی مٹی اُس کی گواہ ہے۔"
"اب تمہارا گھوڑے سے اترنے کا وقت آ گیا، اے ابو عمر! اب تمہیں آرام کا
حق حاصل ہے۔"
صحابہ کرام کے نقشِ قدم پر:
ابو عمر نے جس رفیقۂ حیات "ام عماد"
کے ساتھ یہ سفر شروع کیا، وہ بھی صابرہ، فاضلہ اور میدانِ جدوجہد کی شریکِ کار تھی۔
ان کی
زندگی کا ہر لمحہ اسلام،فلسطین، اور امت کے لیے وقف رہا۔
ہم نے
ان سے سوائے خیر کے کچھ نہ دیکھا، اے رب! تو بھی ان سے راضی ہو جا۔
ابو عمر، امت کی خاموش روشنی:
ابوعمر السوری اُن شہسواروں میں سے تھے جو روشنی بکھیرتے ہیں،
مگر دھوپ
کی طرح چمکنے کا دعویٰ نہیں کرتے۔
وہ امت مسلمہ کے ان انجانے ہیروز میں شامل تھے،
جن کی زندگی گمنامی میں اور موت عظمت میں لپٹی
ہوتی ہے۔
اُن کی
شہادت ہمیں بتاتی ہے کہ ابھی بھی اس امت میں ایسے افراد موجود ہیں،
جن کا ہر سانس،
ہر قدم،
ہر فکری لمحہ
صرف حق
تعالیٰ،
اس کے
دین
اور مظلوموں
کی آزادی کے لیے ہوتا ہے۔
ہم ان
کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کرتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے مجاہدین
کے لیے نصرتِ الٰہی کی التجاد کرتے ہیں۔
نوٹ :۔۔آخر میں آپ سے درخواست
ہے کہ ہمیں اور پوری امت مسلمہ کو خاص طور پر اپنے فلسطینی بھائیوں کو اپنی دعاؤں
میں ضرور یاد رکھیں
اس کتاب کی PDF ڈاؤنلوڈ کرکے اسکو خوب شئر کریں
0 تبصرے
Please do not enter any spam link in the comment box
براہ کرم کمنٹ باکس میں کوئی سپیم لنک نہ ڈالیں